امّت پہ پسر اپنے فدا کرتی ہیں زینب
سینے سے دل و جاں کو جدا کرتی ہیں زینب
چھتٹے ہیں پسر شکرے خدا کرتی ہیں زینب
جو صبر کا حق ہے وہ ادا کرتی ہیں زینب
گھوڑوں پہ وہ جو دونو پرارمان چڑھیں ہیں
کہتی ہیں کے بیٹے میرے پروان چڑھیں ہیں
—————————————————–
یہ کہتی تھی جو کچھ دھیان میں زینب کے یہ آیا
فر دونو جگر گوشوں کو پاس اپنے بلایا
آے جو پسر بیچ میں اکبر کو بٹھیا
اور عون کو گرد اسکے کیی بار پھرایا
باقی جو محمّد تھا یہ رتبہ دیا اسکو
گہواریے اصغر پہ تصدق کیا اسکو
—————————————————–
پھر شاہ کے مجرے کو جھوکیں زینب خوشخوں
کیا عشق برادر تھا کہا شاہ سے رورو
زندہ ہیں ابھی یہ انھے چھاتی سے لگا لو
مرنے پہ تو وسواس بہت آینگے مجھکو
لاش انکی میں حضرت کو اٹھانے نہی دونگی
مردوں کو کلیجے سے لگانے نہی دونگی
—————————————————–
یہ اکبرو اصغر کے عیوض مرنے ہیں جاتے
ہے رسم کے مردے کو نہی ہاتھ لگاتے
ہاں صدقے گئے بن کے یہ دولہا اگر آتے
پھر شوق سے تم خیمے میں لے کر انھے آتے
مر جائیں تو مقتل میں ہی چھوڈ آییو بھائی
لاشوں کو بھرے گھر میں نہ تم لائیو بھائی
—————————————————–
بیٹوں کو بھتیجوں پہ فدا کر چوکی جس آں
مادر ہی کا دل تھا نہ ہوا غم سے پریشاں
بولی کے سیدھارو کے اسد اللہ نگیہباں
تم اکبرو اصغر پہ فدا تم پہ میں قرباں
گل گشتہ گلستانے شہادت ہو مبارک
کوثر ہو مبارک تمھیں جنّت ہو مبارک