Hai Dard Bhari Kaisi Ye Karbal Ki Kahani, Uf Tashna Dahani

Noha

نوحہ
مرتضیٰ شجاع سکندر امروہوی

ہے درد بھری کیسی یہ کربل کی کہانی….اف تشنہ دہانی
بچے بھی ہیں محروم کہ ملتا نہیں پانی….اف تشنہ دہانی

تاریخ بتاتی ہے وہ ہمشکل رسل تھا ….مہکا ہوا گل تھا
اٹھارہ برس سن ہے سنا سینہ پہ کھانی…..اکبر کی جوانی

میداں کو گیا جو بھی وہ واپس نہیں لوٹا…..میں کیا کہوں بیٹا
کس طرح تجھے اذن دوں اے قاسم جانی…بھائی کی نشانی

سر ننگے ہوئی آکے یہاں زینب مضطر….جب چھن گئی چادر
حق کے لیے منظور تھی تکلیف اٹھانی…اے فاطمہ ثانی

زینب کو یقیں آتا ہی کیوں بازو بندھینگے…سر ننگے پھرینگے
عباس وہ بھائی ہے مرا حیدر ثانی….بھائی کی نشانی

بچوں کو سکینہ نے دلاسہ یہ دیا ہے….اور وعدہ کیا ہے
عمو مرے دریا سے ابھی لاتے ہیں پانی….ہے پیاس بجھانی

اصغر نے زباں خشک جو ہونٹوں پہ پھرائی…اعدا کو دکھائی
رونے لگے منہ پھیر کے گو شر کے تھے بانی….وہ دشمن جانی
قدرت کا یہ دستور ہے احساں ہے سکندر… چرچا ہوا در در
حق بات کسی نے کبھی چاہی مٹانی…ہوی جلوافشانی

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *