چھٹا جو مہرے امامت سے مہلقہ فرزند
بدن کا زور ضعیفی کا آسرا فرزند
پدر کی راحت جاں ماں کا لاڈلہ فرزند
زمیں پہ گر کے پکارے کے دلربہ فرزند
جگر پہ برچھی کا پھل کھا کے مر گئے بیٹا
ہمے ضعیفی میں برباد کر گئے بیٹا
—————————————————–
بچھڈ گیا میرا فرزند نوجواں ہے ہے
نظر سے آنکھوں کا تارا ہوا نہاں ہے ہے
وہ سینہ پھول سا اور ظلم کی سینہ ہے ہے
بہار میں چمن اپنا ہوا خزاں ہے ہے
ملا نہ پانی کا قطرہ بھی لعل کو میرے
اجل نے چھین لیا نو نہال کو میرے
—————————————————–
ستم گروں نے پلیا نہ بوند بھر پانی
گیا زمانے سے پیاسہ وہ یوسف ثانی
لگا کے برچھیاں کیا خوش تھے ظلم کے بانی
اڈاۓ خاق نہ کیوں کر رسول کا جانی
بولا کے اہل شقاوت نے ہم کو لوٹ لیا
ہمارے نانا کی امّت نے ہم کو لوٹ لیا
—————————————————–
ہماری زیست کا دنیا میں اب مذہ نہ رہا
جواں پسر کا ضعیفی میں آسرا نہ رہا
قوی تھا جس سے کلیجہ وہ دلربا نہ رہا
نظر میں نور تھا جس سے وہ مہلقہ نہ رہا
خدا پہ خوب ہے روشن جو حال میرا ہے
کدھر کو جاؤں کے چاروں طرف اندھیرا ہے
—————————————————–
یہ کہ کے رن کی طرف شا ہ دیں پناہ چلے
جگر کو ہاتھوں سے پکڑے بہ ا شکو آہ چلے
ہر ایک لاش پہ کرتے ہوۓ نگاہ چلے
ٹٹولتے ہوۓ ہر ہر قدم پہ آہ چلے
کلیجہ شاہ کا صدمے سے نکلا جاتا تھا
یوں جھک گئے تھے کہ سیدھا ہوا نہ جاتا تھا